منیر قصوری کا مجموعۂ نعت ’’آیہ رحمت‘‘ ﷺ

از  شاعر حمد و نعت طاہر سلطانی


منیر قصوری کا مجموعۂ نعت ’’آیہ رحمت‘‘ ﷺ


کتاب کے فلیپ پر منیر قصوری کا ایک شعر جلی حرفوں میں لکھا ہوا ہے    ؎
مجھ کو شعورِ نعت نگاری کہاں منیر
جذباتِ دل سپردِ قلم کررہا ہوں میں
حالاںکہ حقائق اس شعر سے مطابقت نہیں رکھتے اس لیے کہ منیر قصوری نہ صرف اُردو، عربی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے بلکہ قرآن و حدیث پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایک باعمل مسلمان اور عاشقِ رسول ﷺ تھے۔
’’آیۂ رحمت‘‘ میں شامل نعتیہ کلام کے ہر شعر سے ان کی حضور پُرنور آنحضرتﷺ سے عقیدت و محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ میری ان سے بالمشافہ ملاقات تو کبھی نہ ہوئی مگر ٹیلی فون پر اکثر ہم اور وہ ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرتے،و ہ اکثر فرماتے کہ فروغِ حمد کے لیے آپ کی خدمات بے مثل اور لاجواب ہیں، منیر قصوری کے انتقال کی خبر سن کر انتہائی افسوس ہوا، دعا ہے کہ اللہ رب العزت اپنے پیارے رسول ﷺ کے صدقے ان کے درجات بلند فرمائے۔ منیر قصوری مرحوم کا نعتیہ مجموعہ ’’آیۂ رحمت‘‘ جو ۱۹۹۰ء کو لاہور سے شایع ہوا، میرے سامنے ہے، ’’کاروانِ نعت‘‘ کے مدیر بھائی ابرار مغل نے حکم دیا ہے کہ جناب منیر قصوری کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے کچھ لکھوں، سو حکم کی تعمیل میں ایک مختصر مضمون سپرد قلم کرکے ایک قرض جو منیر قصوری کے حوالے سے مجھ پر فرض تھا ادا کررہا ہوں۔ کتاب کا انتساب ملاحظہ فرمائیں اور شاعرِ نعت کی حضورِ اکرم ﷺ اور آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مودت کا اندازہ لگائیں۔ سرکارِ ہر عالم ﷺ کی امّاں جان کے نام اس آرزو کے ساتھ کہ وہ اپنے فرزندِ وحید سے میری سفارش فرمائیں کہ اُن کا یہ منیر اُن کے قدموں کی طرف دفن ہونے کی اجازت چاہتا ہے۔ اپنا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں :
میں غلامِ رسولِ اکرم ہوں
یہ تعارف بڑا تعارف ہے
سطورِ بالا میں یہ بات لکھ چکا ہوں کہ وہ نہ صرف یہ کہ غلام رسول تھے بلکہ وہ عاشقِ رسول بھی تھے۔ حرمین شریفین کی حاضری و حضوری کے تناظر میں وارداتِ قلب کا اظہار ملاحظہ ہو   ؎
وقتِ رخصت میں جو در تھام کے رویا تو کہا
رو نہیں، حوصلہ رکھ پھر بھی بلائیں گے تجھے
منیر قصوری کا اعترافِ چشم رحمت۔ چند اشعار اس حوالے سے پیش خدمت ہیں    ؎
چشم رحمت ہوئی تو غزل چھوڑ دی
یہ عنایت ہوئی تو غزل چھوڑ دی
سبز گنبد نگاہوں میں رہنے لگا
جب یہ حالت ہوئی تو غزل چھوڑ دی
میں منیر اور کیا اب وضاحت کروں
اُنﷺ کی رحمت ہوئی تو غزل چھوڑ دی
منیر قصوری نے کس عمر میں غزل لکھنا چھوڑی یہ تو مجھے نہیں معلوم؟ میں نے اکثر شعرائے کرام کو بڑھاپے میں غزل چھوڑ کر حمد و نعت کی جانب مائل ہوتے ہوئے دیکھا اور سنا، ایک مرحوم شاعر کو مشاعرہ میں یہ اعلان کرتے ہوئے سنا کہ ’’میں توبہ کرتا ہوں غزل کہنے سے‘‘ آئندہ زندگی میں صرف حمد و نعت ہی کہوں گا۔ الحمد اللہ! راقم الحروف نے غزل کبھی نہیں کہی، میرا وظیفۂ حمد و نعت ہی میری زندگی اور آخرت کا سرمایہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم و قلم اور عوام الناس بفضلہ تعالیٰ مجھے شاعر حمد و نعت کے نام سے یاد کرتے ہیں اور جب انہوں نے غزل کو خیرباد کہہ دیا تو ان کی زباں سے اک بابرکت، باعثِ رحمت خواہش کا اظہار ہونے لگا   ؎
آؤ کہ فرض نعت نگاری ادا کریں
سرکارِﷺ دوجہاں کی مسلسل ثنا کریں
اس کے سوا کچھ اور ہمیں کام ہی نہ ہو
سرکارِﷺ دوجہاں کے قصیدے لکھا کریں
یہ کام کرسکیں تو بڑا کام ہے منیر
لوگوں کو آشنائے درِ مصطفیﷺ کریں
نعت نگاری کا فرض ادا کرنے والے منیر قصوری کا عجز و انکسار دیکھیے    ؎
کب نعت نگاری مری ہمت کا اثر ہے
یہ تو مری آقا سے ارادت کا اثر ہے
ہر نعت منیر اک نئے انداز سے کہنا
سرکارﷺ کی توفیق و عنایت کا اثر ہے
حضور اکرم ﷺ سے منیر قصوری کی عقیدت و محبت کا اظہار ملاحظہ ہو    ؎
درِ حضور کی تصویر گھر میں رکھتے ہیں
ہم اس بہشتِ نظر کو نظر میں رکھتے ہیں
بیاضِ نعت نہ لیتے تو ساتھ کیا لیتے
اِس خزانے کو رختِ سفر میں رکھتے ہیں
مرے حضورﷺ کی جانب جو دیکھتے ہیں منیرؔ
مرے حضورﷺ بھی اُن کو نظر میں رکھتے ہیں
پرنور مدینہ منورہ کے گلی، کوچے، روضۂ رسولﷺ، ایوانِ پیمبرﷺ اور وہاں کے در و دیوار سے والہانہ عقیدت و محبت کا اظہار دیکھیے    ؎
دیوار کبھی در کی طرف دیکھ رہا ہوں
ایوانِ پیمبر کی طرف دیکھ رہا ہوں
کونین کے محور کی طرف دیکھ رہا ہوں
میں گنبد خضرا کی طرف دیکھ رہا ہوں
اس وقت مرے پیش نظر بابِ کرم ہے
میں ایک ہی منظر کی طرف دیکھ رہا ہوں
گنبدِ خضرا کی جانب عقیدت و محبت سے دیکھنے والے منیرؔ قصوری لبوں پر شکر کا نغمہ سجائے گویا ہیں    ؎
مجھے بھی آیۂ رحمت بنام بخشا ہے
میں بے مقام تھا مجھ کو مقام بخشا ہے
ہر اک مسئلہ حل کردیا گیا جس میں
ہمیں حضور نے ایسا نظام بخشا ہے
منیر اب میں کسی طور مر نہیں سکتا
کہ نعت گوئی نے مجھ کو دوام بخشا ہے
خدا کا حمد سرا یوں بھی ہوں کہ اس نے مجھے
مذاقِ مدحتِ خیر الانام بخشا ہے
ربِ کریم! جب کسی بندے پراپنا فضل و کرم فرمانے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ اپنے بندے کو محبتِ مصطفیﷺ اور مذاقِ مدحتِ مصطفی ﷺ پر مامور فرمادیتا ہے۔ منیر قصوری خوش بخت تھے کہ مالک ارض و سماوات نے انہیں اپنے پیارے محبوب ﷺ کا نعت گو بنایا۔ منیر قصوری رمضان المبارک ۱۴۳۹ھ کو داتا کی نگری لاہور میں انتقال کرگئے۔ اللہ کریم، حضور اکرم ﷺ کے طفیل اُن کے درجات بلند فرمائے اور ان کے اہل خانہ و دیگر عقیدت مندوںکو صبر جمیل عطا فرمائے اور صبر جمیل پر اجر عظیم عطا فرمائے۔ (آمین)
اپنی ایک نعت کا مطلع و مقطع پیش کرکے رخصت چاہوں گا    ؎
نعت اشکوں سے لکھوں اور سحر ہوجائے
زندگی اُن ﷺ کی ثنا میں ہی بسر ہوجائے
کام بگڑے ہوئے بن جائیںگے اس کے طاہرؔ
جس کی جانب میرے آقاﷺ کی نظر ہوجائے

{}{}{}