قاضی مشتاق احمد پونے یہ ہندوستان ہے پیارے

قاضی مشتاق احمد
پونے     
       یہ ہندوستان ہے پیارے

مغربی بنگال سے خبر آئی ہے کہ اس سال منعقد ہونے والے مدرسہ بورڈ امتحان میں ۷۰؍ہزار طلبہ شریک ہورہے ہیں۔ان میں ۱۸؍فی صد غیر مسلم طلبہ بھی ہیں۔  یہ تناسب ہر سال ۲؍اور ۳؍ فی صد کی شرح سے بڑھتا جارہا ہے۔ریاست میں سرکاری مدد سے چلنے والے چھ ہزار مدرسے ہیں۔ان مدرسوں میں سکنڈری بورڈکے نصاب کے مطابق پڑھائی ہوتی ہے۔شمالی ۲۴؍پرگنہ ضلع کے ایک مدرسے کے انگریزی استاد امیتابھ منڈل کا کہنا ہے کہ’’عام اسکولوں میں سیٹوںں کی کمی ہے۔اس کے علاوہ فیس کم ہونے کی وجہ سے بھی طلبہ مدرسوں کی جانب راغب ہوتے ہیں۔عربی زبان کے ۱۰۰؍ کے پیپر میں ۶۵؍مارکس کے سوالات کے جوابات دے کر کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں‘‘۔مدرسہ بورڈ کے صدر ابو طاہر قمرالدین کہتے ہیں ’’ ہم نے مدرسوں کو بھی عام اسکولوں جیسا بنا دیا ہے۔یہاں طلبہ اور طالبات ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔حکومت نے طلبہ کے لیے اسکالر شپ کا انتظام بھی کیا ہے‘‘۔ان مدرسوں میں پڑھنے والے آگے جاکر انجینٔرنگ اور میڈیکل کالجوں میں داخلہ لے رہے ہیںملک ہی نہیں پوری دنیا میں اپنے لحاظ سے یہ انوکھی بات ہے۔یہاں ہندو طلبہ نہ صرف پڑھ رہے ہیں بلکہ مسلم طلبہ کے مقابلے میں ان کے نتائج بہتر ہوتے ہیں۔بردوان ضلع کے ایک مدرسے میں پڑھنے والی ۱۴؍سالہ صحافی پربھاکر منی تیوارنے بتایا کہ ’’مدرسے میں ہمارے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوتا ہے۔گزشتہ سال مدرسہ بورڈ کے امتحانات میں شامل ہونے والے کچھ طلبہ میں سے لڑکیوں کی تعداد تقریباً۶۰؍فی صد تھی۔ڈانگا ہائی مدرسوں کی تین ہندو طالبات نے ۹۰؍فی صد سے زیادہ نمبر حاصل کیے تھے۔ان مدرسوں کے ۷۵۱؍طلبہ میں ۴۵؍فی صد ہندو ہیں۔آخر ان مدرسوں میں ہندو طلبہ کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے؟اس کا جوب یہ ہے کہ یہاں درس وتدریس کا معیار بہت اونچا ہے،یہاں کا نظم وضبط لوگوں کو اتنا پسند ہے کہ وہ دوسرے اسکولوں سے نام کٹواکر اپنے بچوں کو مدرسے بھیج رہے ہیں۔مغربی بنگال کی یہ مثال دیگر ریاستوں کے مدرسہ منتظمین کے لیے ایک روشن علامت ہے اور ضروری ہے کہ وہ بھی اپنے مدرسوں کا معیار اتنا اونچا کریں کہ ان میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو طلبہ بھی خوشی خوشی داخلہ لیں اور یہ عام غلط فہمی دور ہو کہ مدرسے دہشت گردی کا اڈہ ہیں۔اس کی بجائے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوںکہ یہ مدرسے نئی نسل کو تعلیم دے کر اسے مستقبل کا ایک ذمہ دار شہری بناتے ہیں۔
موجودہ حالات میں جبکہ مسلمان مختلف پریشانیوں سے دوچار ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم سے اپنا رشتہ استوار کریں۔بے مطلب کی ڈگریاں حاصل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔انیسویں صدی میںپس ماندگی کی دلدل سے اپنی قوم کو باہر نکالنے کے لیے سرسید احمد خاں کی قربانیوں کو یاد کرنا ضروری ہے۔انھوں نے غازی پور میں سائنٹفک سو سائیٹی کے تحت ایک مدرسے کی داغ بیل ڈالی جو بعد میں ’’محمڈن اینگلو انڈین کالج‘‘ بنا اور ان کی وفات کے ۲۲؍سال بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  کے بطور شجر سایہ دار بن چکا ہے ۔انھوں نے منصفی کے امتحان میں شریک ہونے والوں کے لیے ’’انتخاب الاخوین‘‘ نامی کتاب لکھی۔ وہ ہندوستان کو ایک ایسی قوم بنا نا چاہتے تھے جو دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی ہمسری کرسکے۔
آج جبکہ ہم ہندو‘مسلم‘سکھ‘عیسائی میں الجھے ہویے ہیں‘سیاسی شعبدہ باز اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ضروری ہے کہ ہم قومی یکجہتی کا ماحول استوار کریں۔ہماری عدلیہ کا کردار بھی مشکوک ہوتا جارہا ہے ۔ایسے میں ضروری ہے کہ اپنے اندر اچھے وکلاء پیدا کریں۔پڑھائی کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔۶۵؍ سے ۹۳؍ سال کے سینئر سٹیزن بھی ’’اگنو‘‘ میں داخلہ لے کر ڈگریاں ھاصل کررہے ہیں۔لاء کالج میں داخلہ ممکن نہ ہوتو ماس میڈیا کا مختصر مدتی کورس کر کے جرنلسٹ کی صورت میںفیک نیوز(جھوٹی خبریں)نشر کرنے والوں کو سبق سکھائیں۔سرسید کی تقلید میں ’’محمڈن سول سروس فنڈ ایسو سی ایشن‘‘بنا لیں تاکہ جو ہونہار نوجوان سول سروس کے امتحانات میں شریک ہونا چاہیںان کے لیے سفر اور تعلیم کے اخراجات فراہم ہوسکیں۔
یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
                                                (ناسر کاظمی)